خرگوش کا گوشت کھانا اور پالنا کیسا ہے؟
آج ہم ایک ایسے سوال پر بات کرنے جارہے ہیں۔ جس کے بارے میں بہت سے بہن بھائی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ گھر کے اندر خرگوش پالنا کیسا ہے اور خرگوش کا گوشت کھانا حلال ہے یا نہیں۔ تو آج ہم آپ کو اس بارے میں تفصیل سے بتائیں گے۔
خرگوش کی بہت سی اقسام ہیں۔ کچھ اقسام کے خرگوش جسامت میں ایک چھوٹے بکری کے بچے کے برابر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے خرگوش کو بڑے سائز کے خرگوش کہا جاتا ہے۔ ان کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ خرگوش حلال جانوروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا گوشت تقریبا ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا استعمال کرتا ہے۔
اس کے گوشت کا رنگ لال ہوتا ہے۔ ذائقے میں لذیذ، تاثیر میں گرم اور جلد ہضم ہونے والا ہے. یاد رہے کہ خرگوش حلال جانور ہے اس حوالے سے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ فقہاء کے نزدیک خرگوش چونکہ گھاس اور دانہ کھاتا ہے۔ مردار یا نجاست اس کی غذا نہیں ہے نہ ہی وہ اپنے پنجوں یا پونچھ سے شکار کرتا ہے۔ اس لیے شرعی طریق پر ذبح کر کے اس کو کھانا حلال ہے۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے خرگوش کا گوشت تناول فرمانا ثابت ہے۔ آئیے آپ کو خرگوش کے گوشت کے حلال ہونے کے حوالے سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بتاتے ہیں۔ تاکہ آپ کی بہتر طور پر اصلاح ہو سکے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خرگوش کو بھگایا اور پھر سب لوگ اس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گئے۔
تو میں نے اسے پکڑ لیا اور لے کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سرین یا دونوں رانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں۔ ان کا بیان ہے کہ کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبول کیا بہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم۔
دوستوں ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ خرگوش کا گوشت حلال ہے اور تمام اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خرگوش حلال جانور ہے۔ اس لیے چاہیے کہ خرگوش کا گوشت استعمال کیا جائے یہ اسلامی تعلیمات کے پیش نظر حلال ہے۔ بلکہ آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ماہرین کے مطابق خرگوش کے گوشت میں دوسرے جانوروں کے مقابلے میں پروٹین کیلشیم، وٹامنز زیادہ اور چکنائی اور سوڈیم کم پایا جاتا ہے۔ آج کل خرگوش کے بالوں سے مختلف اقسام کے ملبوسات اور دیگر اشیائے ضرورت بھی بنائی جا رہی ہیں۔
دوستو جہاں تک اس کو گھر میں پالنے کی بات ہے تو اس کو گھر میں پالا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حلال جانور ہے۔ اور بڑی تیزی سے اپنی نسل بڑھاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مادہ خرگوش ایک بار میں دو سے آٹھ بچے پیدا کرتی ہے۔ زیادہ تر خرگوش کی اقسام زمین میں بل یا سرنگ بنا کر گرہوں کی شکل میں رہتے ہیں اس کے کان تقریبا دس سینٹی میٹر تک لمبے ہو سکتے ہیں اپنے لمبے کانوں کی وجہ سے یہ ہلکی سی آہٹ کو بھی سن لیتا ہے یہ تقریبا اپنے چاروں طرف دیکھ سکتا ہے اس کے اٹھائیس دانت ہوتے ہیں جو سامنے والے چار دانت چار اوپر والے اور چار نیچے والے کی صورت میں آگے پیچھے ہوتے ہیں۔
نر خرگوش کو bux اور مادہ خرگوش کو doze کہتے ہیں اور خرگوش کے بچے بغیر بالوں کے پیدا ہوتے ہیں اور ان کو کٹس کہا جاتا ہے۔ خرگوش سبز رنگ کے پتوں والے پودوں کو کھانا زیادہ تر پسند کرتے ہیں۔ ان کی سب سے پسندیدہ سبزی گاجر ہے۔ ہمارے ملک میں خرگوش کو شوق کے طور پر پالا جاتا ہے۔ اگر اس کو تجارتی پیمانے پر پالا جائے تو ایک اچھی آمدن کا ذریعہ بنے گا خرگوش کو بہت کم خوراک اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوستو یاد رہے کہ دنیا میں خرگوش کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ خرگوش کی اقسام میں سے آپ اپنی پسند اور تجارتی پیمانے پر پالنے کے لیے ان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟
مردوں کو جنت میں حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کیا ملے گا؟ اس کے علاوہ جنت میں کنواری فوت ہو جانے والی لڑکی کس کی بیوی بنے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج کل بہت زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے خواتیں ہی نہیں اکثر ہمارے بھائی بھی یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں انہی سوالوں کا جواب آج ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں
نیک عورت اگر شادی شدہ ہے تو جنت میں اپنے جنتی شوہر کے ساتھ رہے گی اور شوہر کو ملنے والی حوروں کی سردار ہو گی. اور اللہ تبارک و تعالی اس عورت کو ان سب سے حسین و جمیل بنائے گا. اور وہ میاں بیوی آپس میں ٹوٹ کر محبت کرنے والے ہوں گے. اور اگر دنیا میں عورت کے معتدد شوہر ہوں. یعنی عورت نے اپنے شوہر کے انتقال یا اس کے طلاق دینے کے بعد دوسری شادی کر لی ہو یعنی اس عورت نے دو یا اس سے زیادہ شادیاں کی ہو تو وہ جنت میں اپنے کسی شوہر کے ساتھ رہے گی اس بارے میں مختلف روایات اور اقوالمجود ہیں
کہ اایسی عورت کو اختیار دیا جائے گا کہ جس کے ساتھ اس کی زیادہ موافقت ہو اس کو اختیار کر لے یا وہ عورت آخری شوہر کے ساتھ رہے گی اس بارے میں حضرت ابو زردہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورت کو اس کا آخری شوہر ملے گا
اسی طرح ایک اور مقام پر بیان ہوا کہ عورت اس شوہر کے ساتھ رہے گی جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہوگا اور وہ شوہر جس نے عورت پر ظلم کیا ہوگا اس کو تنگ کیا ہوگا وہ اس عورت سے محروم رہے گا حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کسی کے دو شوہر ہوں تو جنت میں کس کے ساتھ رہے گی
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا اسے اختیار دیا جائے گا کہ وہ کسی بھی شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے اور فرمایا جس نے دنیا میں اس کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا ہو اور وہی اس کا جنت میں شوہر ہو گا اے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا اچھے اخلاق والی دنیا اور آخرت کی بھلائی لے گی
اور اگر عورت کنواری ہو یعنی اس کا اس کی شادی سے پہلے ہی انتقال ہو گیا ہو یا شادی شدہ ہو تو ہو لیکن اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو جنت میں جس مرد کو بھی وہ پسند کرے گی اس کے ساتھ اس کا نکاح ہو جائے گا اور اگر موجودہ لوگوں میں کسی کو بھی پسند نہ کرے تو اللہ تبارک و تعالی اس کے لیے ایک مرد جنتی پیدا فرمائیں گے
قبر کی پہلی رات
قبر کی پہلی رات کا منظر کیسا ہوگا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی تلاش میں ہر دوسرا شخص نظر آتا ہے آج ہم اس سوال کا جواب آپ کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے لے کر حاضر ہوۓ ہیں اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ آخر قبر انسان کو کیسے پکارتی ہے؟ کیا یہ پکار انسان کو سنائی دیتی ہے؟
قبر کی پکار
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ قبر ہر دن اپنے مردوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے۔ میں غربت اور تنہائی کا گھر ہوں۔ مٹی اور کیڑوں کا گھر ہوں۔
جب مومن کو دفن کیا جاتا ہے۔ تو قبر اسے مرحبا کہتے ہوئے خوشخبری سناتی ہے کہ میری پشت پر چلنے والوں میں تو بڑا محبوب تھا۔ آج میں تیری ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا۔ تو اب میرے احسان کو دیکھ لے گا یہ کہہ کر قبر تا حد نگاہ کشادہ ہو جاتی ہے۔ اور جنت کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی تازہ ہوا آتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ پھر فرمایا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: یہ قبر ہر دن باآواز بلند کہتی ہے۔ اے آدم کی اولاد! تو کیوں مجھے بھول گیا؟
کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ میں تنہائی کا گھر، غربت کا گھر وحشت کا گھر، کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔ میں بہت تنگ گھر ہوں۔ مگر اللہ جس کے لیے کشادگی کا حکم فرمائے گا اس کے لیے کشادہ ہو جاؤں گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قبر! تو یا تو جنت کا چمن ہے یا پھر آگ کا ایک تنور۔
حضرت ابو حجاج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے۔ تو قبر اس کو کہتی ہے اے ابن آدم تو ہلاک ہوا تجھے کس چیز نے مجھ سے دھوکے میں رکھا۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میں فتنہ، تاریکی اور کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں۔
تجھے کس چیز نے مجھ سے بہکا کر نڈر کر دیا اور تو میری پشت پر خوب اکڑ کر چلتا تھا۔ اگر وہ (مردہ) نیک ہوتا ہے۔ تو اس کی طرف سے قبر کو جواب دینے والے جواب دیتے ہیں۔ اے قبر تو دیکھ تو سہی اس کے اعمال کیسے ہیں۔ یہ اچھائی اختیار کرتا تھا اور برائی سے باز رہتا تھا۔
یہ سن کر قبر کہتی ہے بے شک یہ نیک تھا اب میں اس کے لیے سرسبز ہو جاتی ہوں۔ مردے کا جسم اس وقت منور ہو جاتا ہے اور اس کی روح اللہ تعالی کی طرف بھیج دی جاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ قبر میں بیٹھتا ہے اور ان لوگوں کے پیروں کی آواز بھی سنتا ہے۔ جو اس کے جنازے کے ساتھ قبر تک گئے ہوں۔
مردے سے اس کی قبر کہتی ہے اے ابن آدم تیری ہلاکت ہو۔ تو نے میری تنگی، بدبو اور کیڑے مکوڑوں کا خوف نہیں کیا۔ اس لیے تو نے ان چیزوں سے بچنے کے لیے تیاری نہ کی۔ بد اعمال مردے سے قبر کہتی ہے تجھے میری تاریکی میری وحشت میری تنہائی اور تنگی اور میرا غم یاد نہیں رہا۔ اس کے بعد قبر اس کو جکڑ دیتی ہے۔ جس کے بعد اس کی پسلیوں کی ہڈیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔
جبکہ نیک بندے کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس کے دائیں ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔ جہاں سے اس کو جنت کی ہوا آتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ اور ہم کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
بندر بادشاہ اور بھوت
ایک گھنے جنگل میں بندروں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ بندروں کا بادشاہ بہت عقلمند تھا۔ ایک دن اس نے اپنے گروہ کو اکٹھے بلایا۔
‘میرے پیارے بندرو ہم خوش قسمت ہیں کہ اس خوبصورت جنگل میں رہتے ہیں لیکن خبردار! درخت اور پودے ہرے بھرے اور سرسبز ہو سکتے ہیں لیکن ان میں بہت سے زہریلے پھل ہوتے ہیں۔ تالاب صاف، چمکتا ہوا پانی ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک میں بھوت رہتا ہے۔ اس لیے پہلے مجھ سے پوچھے بغیر کچھ نہ کھاؤ اور نہ پیو۔’
اگلے دن ایک بندر کو پیاس لگی۔ اسے بادشاہ کی بات یاد آئی اور وہ اس سے بات کرنے چلا گیا۔
‘بچے فکر نہ کرو!’ بادشاہ نے کہا۔ ‘میں تالاب کی چھان بین کروں گا کہ یہ محفوظ ہے’۔
جب وہ تالاب کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بڑے بڑے قدم اندر جا رہے ہیں لیکن باہر نہیں آرہے ہیں۔ بادشاہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھوت چھپا ہوا تھا۔ سب بندر رونے لگے، اس فکر میں کہ وہ پانی کیسے پئیں گے۔ بادشاہ نے انہیں تسلی دی اور بھوت کا مقابلہ کرنے چلا گیا۔
بھوت نے قہقہہ لگایا، ‘تم بڑے مخمصے میں ہو، بندر بادشاہ! اگر تمھارے بندر تالاب میں آئے تو میں انہیں کھا لوں گا۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ پیاس سے مر جائیں گے!’
بادشاہ نے سوچا،’ مجھے کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔’
اس نے اپنے بندروں سے بانس کے ٹکڑے جمع کرنے کو کہا۔ کھوکھلی بانس کی چھڑیوں کو آپس میں جوڑ کر اس نے ایک بڑا پائپ بنایا جو تالاب کا پانی چوستا تھا۔ بندر اپنے دل کی خواہش کے مطابق پینے کے قابل تھے۔
‘سب کی طرف سے بندر بادشاہ کو سلام!’ بندروں نے نعرے لگائے۔
وہ بھوت جسے بندر بادشاہ نے اپنی سمجھداری سے شکست دی دی تھی وہ لمبے چہرے کے ساتھ تالاب میں واپس چلا گیا!
جب چیزیں مشکل لگیں تو کبھی ہمت نہ ہاریں، بندر بادشاہ کی طرح با صبر اور ہوشیار رہیں
لعنت
بہت عرصہ پہلے بڑے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہ زیادہ تر وقت پرامن گاؤں تھا، لیکن گاؤں کے لوگ لوبیزون کے خوف میں رہتے تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ جنگل کے اندر رہتے تھے۔ لوبیزون تاریک مخلوق تھے، آدھا آدمی اور آدھا بھیڑیا، اور ہر پورے چاند کی تاریخ پر کہا جاتا تھا کہ یہ مخلوق انسانی گوشت کی تلاش میں جنگل سے باہر نکل آتی تھی۔
لیکن ایسی مخلوق کیسے وجود میں آئی؟ یہ سادہ بات ہے: کسی بھی خاندان میں پیدا ہونے والے ساتویں بیٹے پر لعنت۔ لعنت کسی بیٹی پر نہیں پڑے گی لیکن اگر ایک ماں نے سات بیٹوں کو جنم دیا تو ان بیٹوں میں سے آخری ضرور لوبیزون بنے گا۔
جب فلپ پیدا ہوا تو اس کی ماں خوفزدہ تھی۔ اسے بیٹی کی امید تھی، ساتویں بیٹے کی نہیں۔ لیکن فلپ کی ماں مہربان اور پیار کرنے والی تھی اور وہ اپنے بچے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ گاؤں والے اس لعنت کے بارے میں کچھ بھی کہیں۔
کئی سال سکون میں گزر گئے۔ فلپ ایک مضبوط لڑکا بن گیا جسے اس کی ماں اور باپ اور چھ بھائی بہت پسند کرتے تھے۔ لیکن فلپ یہ یہ نوٹس کرنے سے نہیں رہ سکا کہ اس کے ساتھ اس کے بھائیوں سے مختلف سلوک کیا گیا تھا۔ وہ اسکول نہیں گیا کیونکہ استاد اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ مناسب نہیں تھا کیونکہ نوجوان لڑکا نئی چیزیں سیکھنا پسند کرتا تھا اور شدت سے دوسرے بچوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا تھا۔
اگر کبھی فلپ کو اس کی ماں نے روٹی لینے کے لیے بھیجا تو گاؤں کے لوگ کبھی بھی اس کے راستے میں نہیں آتے تھے اور ہمیشہ اس کی طرف خوف اور ناراضگی کے امتزاج سے دیکھتے جس نے نوجوان لڑکے کو بے چین کر دیا۔ دوسرے بچے اس کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے اور جب پورا چاند ہوتا تھا تو اسے کبھی باغ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ آخری نقطہ شاید ان سب میں سب سے برا تھا کیونکہ فلپ کو چاند سے بہت پیار تھا، اس کے بارے میں کچھ – خاص طور پر جب وہ رات کے آسمان میں بھرا ہوا اور گول تھا – نے فلپ سے بات کی اور اس کی روح کو جگایا اور اسے گانے، ناچنے اور بھاگنے پر مجبور کیا۔
زندگی پرامن ہونے کے باوجود خوشی سے بہت دور تھی۔ فلپ نے ہر گزرتے سال کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ پایا۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے کبھی بھی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ ان کی ہنسی سنتا اور تصور کرتا کہ وہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ سب کتنا مزہ کر رہے ہیں۔ فلپ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔
‘میرے ساتھ اتنا برا کیا ہے؟’ فلپ اکثر اپنے آپ سے پوچھتا تھا۔ ‘میں اتنا برا لڑکا نہیں ہوں۔ میں اپنے کام کاج کرتا ہوں اور میں ‘تقریباً کبھی بدتمیزی نہیں کرتا۔ میرے ساتھ دوسرے بچوں سے اتنا مختلف سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟
جیسے ہی وہ اپنی پندرہویں سالگرہ کے قریب پہنچا، فلپ پہلے سے کہیں زیادہ اداس تھا۔ اس کی ماں اسے شاذ و نادر ہی گھر سے باہر جانے دیتی تھی اور وہ اکثر اس کی صحبت میں مشتعل نظر آتی تھی۔ کم عمر بچے اگر کبھی اسے اپنے گھر کے پاس خود کھیلتے ہوئے دیکھتے تو اس پر پتھر پھینک دیتے، لیکن جب وہ ان کو للکارنے کے لیے مڑتا تو وہ چیختے ہوئے بھاگ جاتے جیسے وہ کوئی عفریت ہو۔ کبھی کبھی فلپ بڑے جنگل میں پناہ ڈھونڈنے اور کبھی واپس نہ آنے کی خواہش کرتا تھا۔
ایک دن اس کی ماں نے اسے بٹھایا اور اس کی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ‘تم میرے ساتویں بیٹے ہو،’ اس نے کہا، ‘اور میرے بچے، تم پر لعنت ہے’۔
فلپ بہت پریشان تھا۔ ‘کیسی لعنت؟’ اس نے پوچھا۔
‘اپنی پندرہویں سالگرہ پر آپ ایک لوبیزون بن جائیں گے، ایک ایسی مخلوق جو آدھا انسان اور آدھا بھیڑیا ہے۔’
فلپ اپنی کتابوں سے لوبیزون کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اور ان کہانیوں سے جو اس کے بھائیوں نے رات کو شیئر کی تھیں جب بھی انہیں لگتا تھا کہ وہ اپنے بستر پر سو رہا ہے۔ لیکن انہوں نے فلپ کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اس طرح ملعون ہے۔ وہ لوبیزون نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ شیطانی یا ظالم نہیں بننا چاہتا تھا، اور اسے اپنے پورے جسم پر لمبے پنجوں اور موٹی کھال ہونے کے خیال کے بارے میں بالکل بھی یقین نہیں تھا۔
اپنی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر، نوجوان فلپ اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ اداس تھا جتنا وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ وہ اندھیرے میں بستر پر بیٹھ کر اپنے آپ سے رونے لگا۔ ‘میں ہمیشہ اکیلا رہا ہوں،’ اس نے سوچا۔
‘میرے ساتھ ہمیشہ مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اور اب میں لوبیزون بننے پر لعنت شدہ ہوں۔ میں کیا کروں؟ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ ہر ایک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ دوستوں کے ساتھ جنگل میں کھیلوں اور رات کو خوبصورت چاند کی تعریف کروں۔’
اسی وقت فلپ نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھا کہ چاند ستاروں سے بھرے گہرے نیلے آسمان میں طلوع ہو رہا تھا ۔ یہ ایک بڑا خوبصورت پورا چاند تھا اور اس نے اس کا دل خوشی سے بھر دیا۔ پھر کچھ بہت ہی عجیب ہوا: فلپ نے اپنے پیٹ میں ہلچل محسوس کی اور اپنی جلد پر خارش محسوس کی۔ اس کے سینے سے چیخنے کی آواز آئی اور اس نے چاند کی طرف سر اٹھا کر اسے پکارا جیسا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس کے جسم پر اچانک کھال پھوٹ آئی اور اس کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن ہاتھی دانت کے رنگ کے لمبے پنجوں میں بدل گئے۔ اس کے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور اس کے قدموں میں فرش پر گر گئے۔ اور جب فلپ نے آئینے میں دیکھا تو اس نے ایک لمبے بھیڑیے والے لڑکے کا عکس دیکھا جو اس کے پورے جسم پر موٹی کھال کے ساتھ اسے گھور رہا تھا اور جنگلی سرخ آنکھیں جو اندھیرے میں چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔
‘ تو میں ایک لوبیزون ہوں!’ اس نے چونک کر کہا۔
فلپ نے چاند اور جنگل کی پکار کو محسوس کیا اور وہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پرانی زندگی سے منہ موڑ لے اور اپنی تقدیر کو گلے لگائے۔
نوجوان بھیڑیے والے لڑکے نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی کھول دی۔ رات کو باہر چھلانگ لگانے سے پہلے وہ رک گیا اور اپنے پرانے بیڈروم کے ارد گرد ایک آخری نظر ڈالی اور اپنی ماں اور باپ اور اپنے چھ بھائیوں کے بارے میں سوچا۔ ‘میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا، میرے پیارے خاندان، لیکن اب مجھے قبول کرنا چاہیے کہ میں کون ہوں اور نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔’
پھر وہ اپنے سونے کے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا، ہر وقت چاند پر چیختا رہتا، اس کا دل مستقبل کے لیے عجیب نئی امید سے بھرا رہتا تھا۔
جب فلپ بڑے گہرے جنگل کے اندر تھا، تو اس نے ایک خوبصورت جگہ پر رک کر قدیم درختوں اور آسمان میں بلندی پر موجود خوبصورت چاند کو دیکھا۔ وہ چیختا اور چیختا اور چھلانگ لگاتا اور ناچتا اور ہنستا… اور جب آخر کار اس نے چیخنا اور ناچنا بند کر دیا تو اس نے اردگرد دیکھا اور دیکھا کہ دیگر لوبیزون جنگل کے خالی حصے میں جمع تھے۔ کچھ فلپ کی طرح جوان تھے، کچھ بوڑھے تھے۔
وہ فلپ کے قریب پہنچے اور اس کا استقبال کیا۔
’تم اب گھرمیں ہو، دوستوں کے درمیان بڑے جنگل میں،‘ ایک نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔ اور یہ تب ہی تھا جب فلپ کو احساس ہوا کہ وہ بالکل بھی لعنتی نہیں ہے۔
‘میں ایک لوبیزون ہوں اور میں گھر میں ہوں!’ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا جب اس نے پورے چاند تک اپنا سر اٹھایا اور پوری طاقت سے چیخا۔ دوسرے لوبیزون سب نے اس میں شمولیت اختیار کی اور چاند کے اعزاز میں رات کے آسمان پر ایک زبردست گروپ میں گانا گایا۔
کئی میل دور، فلپ کی ماں اپنے باغ میں اپنے نائٹ گاؤن میں ملبوس کھڑی تھی اور بڑے جنگل کے اندر سے ہلکی ہوا کے جھونکے پر بہتی ہوئی لوبیزون کی آواز سن رہی تھی۔ بوڑھی عورت اپنے آپ سے مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتویں بیٹے نے آخرکار اپنے آپ کیلئے ایک ایسا گھرڈھونڈ لیا ہے جہاں اس کا استقبال کیا جائے گا اور جہاں اس کے بہت سے دوست ہوں گے اور وہ لمبی اور خوشگوار
علی انگوٹھا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔
بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا
ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا،
‘ یہی ہمارے لیے خدا کی دین ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔’
لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔
ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔
وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔
علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی۔
گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔
مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔
وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔
درحقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔
علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔
ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں تککا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔
علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔
اس نے کہا، ‘ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔’ ‘میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟
‘یہ آسان ہو جائے گا،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ‘آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئےنظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔’
علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پرجوش تھا، اور اس وجہ سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا ناممکن پایا۔
بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔
ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔
سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔
والد نے کہا، ‘ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے۔’
‘میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!’ علی نے کہا۔
نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔
علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔
بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔
پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔
بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے، بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کردیں۔
تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینےکے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔
اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔
‘اپنی بندوقیں نیچے کرو!’ آواز نے حکم دیا. ‘میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔’
کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔
پھر آواز آئی، اس بار پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ‘میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو ۔’
چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔
اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے ۔
اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔
‘فکر نہ کرو،’ علی کے والد نے کہا۔ ‘یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔’
اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔
‘مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔
مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔
لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہوگا۔
صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔
ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔
اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔
‘کیا ہوگا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟’ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔
لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔
‘اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔’
علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔
اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں